Tuesday, November 6, 2018

روزنامچہ



چلیں دونوں چلتے ہیں، عایزہ کیلیے گرم کپڑے خریدیں گے اور کچھ شاپنگ بھی، بیگم نے ناشتہ میں چایے دیتے ہویے بولا۔ اب چونکہ چایے میری کمزوری ہے، تو نادانستگی سے درخواست خود بخود قبول ہوگیی۔ نکل پڑے پاس والے مارکیٹ میں، ابھی تو دو سویٹرز خریدے ہی تھے، کہ عایزہ نے بولا، پاپا ٹرین میں جانا ہے، ہم راضی ہویے اور ریلوے سٹیشن کیطرف نکلے۔ قریب ترین اگلے سٹیشن کی دو ٹکٹیں کاٹ دی، جو ترنول سے فتح جنگ کا تھا۔ معلوم ہے کیا؟ صرف ۷۲ روپے کے ہمیں دو ٹکٹیں ملی۔ اب ٹرین میں دس منٹس باقی تھے، ہم سٹیشن پہ بیٹھ گیے۔ مجھے نومبر کا مہینہ ویسے اچھا لگتا ہے، اور اوپر سے سٹیشن پہ مسافر لوگ اپنے ساز و سامان کیساتھ، بہت ہی زیادہ مسمرایز کرتا ہے۔ ٹرین جیسی پہنچی ہم جلدی داخل ہویے یہ سوچ کر، کہ شاید ہمیں جگہ نہیں ملی گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ داخل ہوتے ہی، اگلے والے بھوگی میں گیے اور آمنے سامنے بیٹھ گیے۔ چونکہ عایزہ پہلی دفعہ ٹرین میں جارہی تھی، تو ایک ایک چیز کا مشاہدہ کرتی رہی، لیٹرین میں پانی کہاں سے آتا ہے، لیٹرین سے پیشاب کہاں نکلتا ہے، دروازے سے کویی گر گیا تو، یہ بوڑھی عورت کیوں سور رہی ہے، یہ لڑکا سگریٹ کا دھواں ناک میں سے نکالتا ہے، وغٰیرہ وغیرہ۔ 
ٹرین کی آواز، افسردہ لوگ، چایے پانی بیچنے والا بچہ، دور دراز کھیتوں میں خواتیں کھیتی بھاڑی میں مصروف، بجلی کے تیزی گزرنے والے کھمبے، اور ٹرین کے اندر مٹی، شا بابا پاپڑ کے خالی تھیلے، ٹکٹ چیکر، اور ریلوے سٹیشن مجھے انوراگ کشف کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ 
ہم نکلے تو تھے شاپنگ کیلیے لیکن اب ہم ابن بطوطہ کے وارثین ٹهر ے ۔ ابھی ایک پورا پانی کا بوتل ختم نہیں ہوا تھا، ابھی صرف چا کیلے، ریوڑھی کا ایک ڈبہ ختم نہیں ہوا تھا، کہ ٹرین نے "ہووووووونگ" کی آواز دی اور فتح جنگ کا سٹیشن پہنچ گیا۔ سٹیشن پہ بیٹھ گیے، چایے پی، پکوڑے کھایے، تصویر کشی کی۔ رکشہ پہ بیٹھ کر اڈہ گیے، اور وہاں سے گاڑی پکڑ کر گھر واپس آگیے۔ پورے ٹرپ پہ دونوں سایڈز کا کرایہ اور ہلکا پلکا کھانے سمیت 630 روپے بجٹ آیا۔ مطلب سوچا نہیں تھا۔
زندگی بہت خوبصورت ہے، ایک ایک لمحہ جینے کا ہنر سیکھییے۔ "اس نے کہا، اُس نے کہا" میں ہم نے اپنی پوری زندگی جُنڈ کرکے رکھی ہے۔